ہندوستان پر منگولوں کا حملہ، 1297ء و 98ء
معرکہ جڑاں منجر | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ منگولوں کے ہندوستان پر حملے | |||||||||
| |||||||||
مُحارِب | |||||||||
خانیت چغتائی | سلطنت دہلی | ||||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||||
کادر | الغ خان، ظفر خان | ||||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||||
20,000 مقتول، متعدد گرفتار (بمطابق امیر خسرو) | نامعلوم |
منگولوں کا حملہ
[ترمیم]منگولوں کے خانیت چغتائی نے دہلی سلطنت پر مختلف اوقات میں متعدد حملے کیے جن میں 1241ء، 1245ء، 1257ء اور 1285ء کے بڑے حملے بھی شامل ہیں۔ سلطان علاء الدین کے پیشرو جلال الدین خلجی نے بھی اپنے عہد حکومت میں منگولوں کے حملے کا سامنا کیا اور انھیں روکنے کی کوشش کی تھی۔ علاء الدین خلجی کے دور حکومت میں منگولوں نے پھر ہندوستان پر حملہ کیا جو سابقہ حملوں سے نسبتاً زیادہ بڑے اور دہشت ناک تھے۔ ان میں سے پہلا حملہ دُوا نامی منگول حکمران کے فرمان پر ہوا جس نے اپنے نویان کادر کو ایک لاکھ کا لشکر جرار دے کر روانہ کیا تھا۔[1]
سنہ 1297-98ء کے موسم سرما میں نویان کادر نے دہلی سلطنت کے خطہ پنجاب پر حملہ کیا[2] اور اس کی آبادیوں کو تاراج کرتا ہوا دلی شہر کے جانب بڑھا۔ علاء الدین کے درباری مورخ امیر خسرو نے لکھا ہے کہ منگول کوہ سلیمان کے راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ یہ لشکر پنجاب کے بڑے دریاؤں کو عبور کرتے اور کھوکھروں کی آبادیوں کو خاکستر کرتے ہوئے قصور کی جانب بڑھا۔ قصور میں بھی ان منگولوں نے گھروں کو لوٹ کر آگ لگا دی۔ امیر خسرو نے لکھا ہے کہ گھروں میں لگائی جانے والی اس آگ کے شعلے اتنے بلند تھے کہ شہر کے مضافات سے دکھائی دیتے تھے۔[3]
جوابی کارروائی
[ترمیم]جب سلطان علاء الدین خلجی کو اس بلائے ناگہانی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بھائی اور سالار الغ خان کو منگولوں سے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ یہ لشکر ظفر خان اور الغ خان دونوں کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا تھا۔ لیکن امیر خسرو نے ظفر خان کا نام درج نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے برنی کی اطلاع درست ہو[3] کیونکہ معرکہ کلی میں ظفر خان کی حکم عدولی کی بنا پر خلجی خاندان کے باضابطہ دستاویزوں ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے۔ خسرو کے مطابق منگولوں سے جلد از جلد مقابلے اور ان کے قہر کو روکنے کے لیے الغ خان نے ایک دن میں دو پڑاﺅ کا فاصلہ طے کیا اور بالآخر 6 فروری 1298ء کو لشکر سلطانی دریائے ستلج کے کنارے واقع جڑان منجر نامی مقام پر خیمہ زن ہوا۔[3]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Kishori Saran Lal 1950, p. 152.
- ↑ Peter Jackson 2003, p. 221.
- ^ ا ب پ Banarsi Prasad Saksena 1992, p. 332.
کتابیات
[ترمیم]- Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ $1 میں Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206–1526)۔ 5 (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ OCLC 31870180
- Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290–1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC 685167335
- Nizamuddin Ahmad (1927)۔ The Tabaqat-i-Akbari۔ Bibliotheca Indica۔ 1۔ ترجمہ بقلم B. De۔ Calcutta: Asiatic Society of Bengal
- Peter Jackson (2003)۔ The Delhi Sultanate: A Political and Military History۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-54329-3۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018